حقیقت اعتکاف

وصال حق کیلئے تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کی خواہش ہر دور میں سعید روحوں کا شیوہ رہی ہے اور انسان اخلاقی و روحانی کمال کے حصول کیلئے مختلف نوعیت کی اضافی مشقتیں اور مجاہدات اپناتا چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ حصول مقصد کی تگ و دو میں کبھی تو وہ جادہ اعتدال پر گامزن رہا اور کبھی افراط و تفریط کا شکار ہو گیا۔ وصال محبوب کی خاطر تزکیۂ نفس کیلئے کی جانے والی مختلف النَّوع کاوشوں میں سے ایک مسلمہ طریق مخلوق سے بے رغبتی اور کنارہ کشی ہے جس میں افراط کی معروف صورت ’’رہبانیت‘‘ ہے جو مختلف امم سابقہ کا شیوہ رہی ہے۔

رہبانیت کیا ہے؟

اممِ سابقہ میں وصال حق کے متلاشیوں نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ معمولات حیات اور دنیاوی مشاغل و مصروفیات جاری رکھتے ہوئے اپنی منزل کو نہیں پا سکتے کیونکہ نفس کی غفلتیں اور سماجی ذمہ داریوں کی الجھنیں انہیں وہ محنت و مشقت اور مجاہدہ نہیں کرنے دیتیں جو معرفت حق اور وصال محبوب کیلئے ضروری ہے تو انہوں نے لذّاتِ نفسانی سے دستبرداری اور علائق دنیوی سے کنارہ کشی کی راہ اپنائی، سماجی ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے جنگلوں اور ویرانوں کا رخ کیا، بیوی بچوں اور معاشرتی زندگی کی دیگر مصروفیات سے منہ موڑ کر غاروں کی خلوتوں اور کھوہوں کی تنہائیوں میں جا کر ڈیرہ لگایا اور وہیں رہ کر کثرتِ عبادت و مجاہدہ اور نفس کشی کے ذریعے وصالِ حق کی جستجو کرنے لگے۔ قرآن نے ان کے اس تصور حیات کو ’’رہبانیت‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ قرآن کی رو سے یہ طرز زندگی وصالِ حق کی متلاشی روحوں نے ازخود اختیار کیا تھا حالانکہ یہ طریقہ ان پر فرض نہیں کیا گیا تھا ارشاد ہوتا ہے :

وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَO

(الحدید، 57 : 27)

’’اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لئے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کر سکے (یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکے)، سو ہم نے اُن لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے (اور بدعتِ رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لئے جاری رکھے ہوئے) تھے، اُن کا اجر و ثواب عطا کر دیا اور ان میں سے اکثر لوگ (جو اس کے تارک ہوگئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیں۔‘‘

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ دین عیسوی میں رہبانیت اصلاً فرض تھی بلکہ اس کا تعلیمات مسیح میں سرے سے کوئی ذکر ہی نہ تھا، بعد کے لوگوں نے از خود رضائے الٰہی کی خاطر زیادہ ریاضت و مجاہدہ اور عبادت و مشقت کی غرض سے رہبانیت (ترک دنیا) کی صورت پیدا کر لی۔ چونکہ یہ کام رضائے الٰہی کے نصب العین ہی کے تحت کیا گیا تھا اس لئے قرآنی بیان کے مطابق باری تعالیٰ نے اسے امر مستحسن کے طور پر قبول کرلیا۔ اب یہ ضروری تھا کہ رہبانیت کے جملہ تقاضے کماحقہ پورے کئے جاتے تاکہ اس سے صحیح روحانی فائدہ میسر آتا۔ لیکن ان میں سے اکثر افراد بالالتزام ان تقاضوں کو پورا نہ کرسکے۔ اس لئے انہیں نافرمان قرار دیا گیا اور جنہوں نے اس کے تقاضوں کو صحیح طور پر پورا کیا انہیں باری تعالیٰ نے اجر و ثواب سے بہرہ ور فرمایا۔

گویا جب تک رہبانیت میں مقصدیت کار فرما رہی اسے گوارا کیا جاتا رہا۔ لیکن جب وہ محض رسمِ دنیا بن کر رہ گئی اور اس کی روح فوت ہو گئی تو جس مقصدیت کی وجہ سے اسے گوارا کیا گیا تھا وہ پیش نظر نہ رہی، لہٰذا اس کی افادیت بھی ختم ہو گئی۔

ایک غور طلب نکتہ

اس تناظر میں ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ قرآن نے اس فعل کو کہیں حرام قرار نہیں دیا اور نہ ہی اسے کوئی ایسا فعل مذموم قرار دیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آتی ہو بلکہ اللہ رب العزت نے نہایت حکیمانہ انداز میں اس بات کی نشاندہی فرمائی ہے کہ ہم نے ان کے اس فعل کو اس لئے گوارا کیا کیونکہ اسے ہماری ہی رضا کے حصول کے لئے اپنایا گیا تھا اور ان لوگوں کا مقصود و مطلوب سوائے وصال حق کے اور کچھ نہ تھا لہٰذا ہم نے ان پر نہی وارد نہ کی۔ گویا رہبانیت فی نفسہ کوئی مذموم اور ناپسندیدہ شعار زندگی نہیں تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمۃ للعالمینی اور ترک رہبانیت

جب سرکار دو عالم رحمت مجسم، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتمیت، اکملیت اور کاملیت کی شان کے ساتھ اسلام کی صورت میں دین فطرت لے کر کائنات انسانی میں مبعوث ہوئے اور قرآن کی صورت میں اللہ کا آخری پیغام انسانیت تک پہنچا دیا، تو فرمایا :

لا رهبانية فی الاسلام

’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے بالعموم یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ اسلام نے رہبانیت کی نفی کردی ہے یا اسلام میں رہبانیت نام کی کسی شے کا وجود نہیں۔ یہ استنباط اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس فرمان اقدس کے ذریعے نفس کشی کے بے جا ضابطوں سے نجات عطا کر کے اپنی امت کو ایک بہت بڑی نعمت سے بہرہ ور کر دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی زبان حال سے پوری امت کو یہ خوشخبری دے رہا ہے کہ اے شمعِ دینِ حق کے پروانو! تلاش حق کے راہ نور دو! اور جلوہ محبوب کے متلاشیو! اب تمہیں اپنے محبوب کے دیدار و وصال کے لئے اپنے بیوی بچوں کو خیرباد کہنے کی ضرورت نہیں۔ اب تمہیں حصول منزل کے لئے جنگلوں، ویرانوں، غاروں اور کھوہوں کو اپنا مسکن بنانے کی حاجت نہیں۔ اب تمہیں تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کے لئے معاشرتی زندگی اور سماجی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ نور حق تمہارے درمیان ضو ریز اور رسول رحمت تمہارے مابین جلوہ گر ہو چکے ہیں، یوں اللہ کا دین اپنے اتمام کو پہنچا اور اب تمہیں بے جا مشقتیں اٹھانے اور رہبانیت اپنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ تمہیں اسلام کی صورت میں ایک مکمل اور جامع نظام حیات سے بہرہ ور کر کے رہبانیت جیسی بے جا مشقتوں کے بوجھ سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ تم چاہو تو اس رحمت مجسم کی اتباع و اطاعت کر کے اسی دنیا میں رہتے ہوئے، کاروبار زندگی کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے بیوی بچوں اور دیگر افراد معاشرہ کے حقوق کی ادائیگی سے عہدہ برآ ہوتے ہوئے بھی وصال یار اور قرب الٰہی کی منزل کو پاسکتے ہو۔ ہم نے تمہاری رہبانیت کا بدل بلکہ نعم البدل عطا کر دیا ہے اور وہ ہے ’’اعتکاف‘‘

گویا رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان اقدس کا معنی یہ ہے کہ اسلام جیسے کامل و اکمل اور مکمل دین کی موجودگی میں اب رہبانیت نام کی کسی بے جا ریاضت اور نفس کشی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔

اسلام کا عمومی مزاج

اسلام دین فطرت ہے جو انسان کے فطری واجبات اور نفسی مقتضیات کی رعایت رکھتے ہوئے ان کی تکمیل کے لئے حکیمانہ راہ تجویز کرتا ہے۔ اسلام اگر کسی چیز پر پابندی عائد کرتا ہے یا کسی تصور کو ختم کرتا ہے تو انسان کو اس کا بہتر بدل بھی عطا کرتا ہے تاکہ اس چیز یا تصور کی خوگر طبائع پر یہ تبدیلی گراں نہ گزرے اور اس تبدیلی کی نہ صرف افادیت مسلم ہو جائے بلکہ انسانی طبائع اس کی طرف بہ رغبت مائل بھی ہوں۔

سود کا بدل۔ ۔ ۔ قرض حسنہ

مثال کے طور پر جب سودی لین دین جیسے انسانیت کش نظام کو معاشرے سے ختم کرنے کا ارادہ کیا گیا تو اس کے خاتمے سے پہلے زکوٰۃ و صدقات اور قرض حسنہ جیسے انسانیت پرور تصورات کو متعارف کرایا گیا۔ اس کے برخلاف اگر زکوٰۃ و صدقات اور قرضِ حسنہ جیسے انسان پرور نظام کو رائج کئے بغیر سود کی لعنت سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی جاتی تو یقیناً مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوسکتے۔

نشہ شراب کا بدل ۔ ۔ ۔ نشہ شراب عشق الٰہی

اسلام نے شراب کو یک دم حرام قرار نہیں دیا بلکہ اسلام جو دین فطرت ہے اور انسانی طبائع کی کمزوریوں سے بخوبی آگاہ ہے، نے شراب پر بتدریج پابندی عائد کی اور اس وقت تک اسے کلیتاً حرام قرار نہیں دیا جب تک کہ شراب کے نشہ اور کیف و سرور کے رسیا طبائع کو عشق الٰہی کے نشہ سے متعارف اور ذکرِ الٰہی اور دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نشے سے بہرہ ور نہیں کر دیا گیا۔ جب تک لوگوں کو نشہ شراب کا نعم البدل عطا نہیں کر دیا گیا شراب پر پابندی نہیں لگائی گئی۔

علی ھذا القیاس اسلام نے جن جن امور پر پابندی عائد کی ہے فطرت انسانی کی مقتضیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا بہتر بدل انسان کو عطا کر دیا۔

ایک سوال

اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام مذموم امور پر بھی اس وقت تک پابندی عائد نہیں کرتا جب تک اس کا بہتر بدل مہیا نہیں کردیتا تو رہبانیت جو فی نفسہ اتنی ناپسندیدہ اور مذموم چیز نہیں تھی بلکہ وہ معرفتِ حق اور وصال الٰہی کی طلب سے عبارت ایک باقاعدہ نظام حیات تھا، جب اسلام اس پر پابندی عائد کر رہا ہے تو کیا اس کا کوئی نعم البدل نہیں دیا ہوگا۔ اسلام کی حکیمانہ تعلیمات کے پیش نظر یہ ممکن ہی نہیں کہ اس نے رہبانیت کا بہتر بدل امت مسلمہ کو فراہم نہ کر دیا ہو اور وہ نعم البدل جو جادہ حق کے متلاشیوں کو اسلام نے عطا کیا ہے ’’اعتکاف‘‘ ہے۔

حقیقت اعتکاف ۔ ۔ ۔ خلوت نشینی

اعتکاف کی حقیقت خلوت نشینی ہے اور یہ رب العزت کا اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدُّق سے امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خصوصی لطف و احسان ہے کہ وصال حق کی وہ منزل جو اممِ سابقہ کو زندگی بھر کی مشقتوں اور بے جا ریاضتوں کے نتیجے میں بھی حاصل نہیں ہوتی تھی فقط چند روز کی خلوت نشینی سے میسر آسکتی ہے۔ چنانچہ اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ انسان چند روز کے لئے علائق دنیوی سے کٹ کر گوشہ نشین ہوجائے۔ ایک محدود مدت کے لئے خلوت گزیں ہو کر اللہ کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی تجدید کرلے، اپنے من کو آلائش نفسانی سے علیحدہ کر کے اپنے خالق و مالک کے ذکر سے اپنے دل کی دنیا آباد کرلے، مخلوق سے آنکھیں بند کر کے اپنے خالق کی طرف لو لگائے ان کیفیات سے مملو ہوکر جب انسان دنیا و مافیھا سے کٹ کر صرف اپنے خالق و مالک کے ساتھ لو لگا لیتا ہے تو اس کے یہ چند ایام سالوں کی عبادت اور محنت و مشقت پر بھاری قرار پاتے ہیں۔

خلوت نشینی کیوں؟

جیسا کہ پہلے تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے کہ اعتکاف کی حقیقت خلوت نشینی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر خلوت نشینی کا فلسفہ کیا ہے؟ انسان آخر خلوت نشینی کیوں اختیار کرے؟

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان کا نفس انسان کو ہمہ وقت برائی پر اکساتا رہتا ہے :

إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ.

(یوسف، 12 : 53)

’’بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے۔‘‘

ارشاد قرآن کی رو سے تمرد و انحراف انسانی نفس کا شیوہ اور اس کی فطرت میں شامل ہے۔ چنانچہ کاروبار حیات کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انسان بالعموم غفلتوں کا شکار رہتا ہے۔ نتیجتاً انسان میں کسی کا بندہ ہونے کا شعور بیدار نہیں رہتا اور انسان مسلسل بغاوت و سرکشی پر مائل رہتا ہے۔ اسی شعور بندگی کو بیدار کرنے کے لئے اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس امر کی تعلیم دی ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں تھوڑی دیر کے لئے انسان گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور اپنے آپ کو ایک مجرم کی حیثیت سے اپنے آقا و مولا کی بارگاہ میں پیش کر کے اصلاح احوال کا متمنی ہو۔ یہ معمول زندگی بھر رہنا چاہئے لیکن رمضان المبارک چونکہ خصوصی رحمتوں کا مہینہ ہے اس لئے اس ماہ رحمت میں خلوت نشینی کے اس تصور کو ایک باقاعدہ ضابطے کے تحت اعتکاف کی صورت میں متعین کیا گیا ہے تاکہ سال بھر علائق دنیوی میں ملوث رہنے والا انسان چند روز کے لئے اپنے نفس کے متمرد اور سرکش گھوڑے کو لگام ڈال سکے۔ نیز کثرت ذکر الٰہی اور ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے تصفیہ باطن کر کے خلوت میں جلوت محبوب کی دولت سے بہرہ ور ہوسکے۔

اعتکاف کس نیت سے کیا جائے؟ ۔ ۔ ۔ ایک ایمان افروز نکتہ

احوال نفس کے اختلاف کے پیش نظر اعتکاف کے لئے مختلف لوگوں کی نیت مخلتف ہوسکتی ہے۔ مثلاً بعض لوگ اس نیت سے اعتکاف کرتے ہیں کہ اس ذریعے سے وہ نفس کو علائقِ دنیوی سے پاک اور مخلوق کے شر سے خود کو بچائیں گے۔ اس نیت سے خلوت نشینی اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا گناہوں کا گھر ہے اور مخلوق کے ساتھ میل ملاپ سراسر گھاٹے کا سودا ہے لہٰذا خود کو اس شر سے محفوظ کرنے کے لئے انسان کو خلوت گزیں ہو جانا چاہئے۔ یہ نیت بھی درست ہے لیکن اس میں پنہاں ایک بہت بڑا فساد بجائے خود نفس کے لئے ایک بہت بڑے تَمرّد اور سرکشی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس نیت سے اعتکاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گویا انسان نے خود کو دوسروں سے بہتر جانا اور اپنے نفس کو مخلوق خدا کے شر سے بچانے کے لئے گوشہ تنہائی میں جانے کا ارادہ کیا۔

اعتکاف کے لئے محمود ترین نیت یہ ہے کہ انسان اعتکاف کرتے ہوئے یہ نیت کرے کہ میرا نفس فتنہ و فساد کی آماجگاہ اور شر کا پیکر ہے اس میں ہر آن بغاوت و سرکشی کے میلانات سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ کیوں نہ میں کچھ عرصہ کے لئے گوشہ نشین ہوجاؤں تاکہ مخلوق خدا کچھ عرصہ کے لئے میرے نفس کی فتنہ سامانیوں اور اس کے شر کی ہلاکت خیزیوں سے محفوظ رہ سکے۔

ایک دلچسپ حکایت

ایک مرتبہ ایک خلوت گزیں درویش سے کسی نے گوشہ نشینی کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ میرے پاس ایک کتا ہے جو نہایت خطرناک ہے۔ میں اس کے شر سے لوگوں کو بچانے کے لئے خلوت نشین ہوگیا ہوں۔

پوچھا گیا ’’وہ کتا کہاں ہے؟‘‘

فرمایا ’’میرا نفس‘‘

حقیقت نفس

نفسِ انسانی اپنی خلقت کے اعتبار سے بہیمانہ خصلتوں کا مرقع ہے۔ حرص و ہوا، لالچ و مفاد پرستی، غرور و تکبر، خود غرضی و خود پسندی، بغض و حسد، کینہ اور عداوت، عیاری و مکاری، دجل و فریب وغیرہ یہ سب نفس کے خصائل ہیں جن سے انسان کو ہمہ وقت اللہ کی پناہ مانگتے رہنا چاہئے۔ نفس کبھی عالم کو اپنے علم کے گھمنڈ پر اکساتا ہے تو کبھی عبادت گزار کو کثرتِ مجاہدہ کے تکبر پر، کبھی کسی سخی کو سخاوت کے زُعم میں مبتلا کر کے ہلاکتوں میں ڈال دیتا ہے تو کبھی کسی مجاہد کو خود پسندی کے فریب میں پھنسا کر۔ غرضیکہ یہ ظالم ہمہ وقت انسان پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے اور ہر انسان پر اس کا حملہ انسان کے حسبِ حال ہوتا ہے۔ نیکوکاروں پر تو خود پسندی اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کے فتور کی صورت میں ایسے ہلاکت انگیز حملے کرتا ہے کہ آن واحد میں انسان کا خرمنِ اعمال خاکستر ہو کر رہ جاتا ہے اور انسان کی مدتوں کی کمائی آناً فاناً لٹ کر رہ جاتی ہے نفس کی ہلاکت خیزیوں کا یہ عالم ہے کہ انسان کبھی زندگی بھر اس کی غارت گری پر مطلع نہیں ہوپاتا اور جب اچانک پردہ اٹھتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ میں کس قدر فریب نفس میں مبتلا رہا اور یہ ظالم نفس کس طرح مجھے اپنے دام تزویر میں شکار کئے ہوئے تھا۔

مقصود خلوت نشینی

خلوت نشینی کا مقصود و مطلوب یہ ہے کہ انسان گوشہ تنہائی میں داخل ہوکر خود کو مخلوق سے قلباً جدا کرلے اور جب خلوت نشینی سے باہر آئے تو نفس سے خود کو جدا کرچکا ہو۔ نفس سے جدا ہونے کا مطلب خصائل نفس سے اپنے آپ کو مبرا کر لینا ہے۔ درست ہے کہ نفس کثرت ریاضت و مجاہدہ سے بھی کمزور پڑتا ہے۔ کثرتِ رقت و گریہ زاری، نفس کی تمام آلائشوں کو دھو دیتی ہے اور رفتہ رفتہ انسان خصائل نفس سے جدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب نفس انسان اپنی خصلتوں سے جدا ہو جاتا ہے تو اسے اپنے محبوب و مطلوب کی جلوت نصیب ہوجاتی ہے۔ اور وہ اپنے من کی مراد کو پالیتا ہے۔ یاد رکھئے! جب تک انسان نفس کی معیت میں رہتا ہے رب کی معیت سے محروم رہتا ہے اور جب بندہ نفس اور اس کی خصلتوں سے جدا ہو جاتا ہے تو اسے اپنے رب تعالیٰ کی صحبت نصیب ہو جاتی ہے۔

حضرت مالک بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! آپ کو خلوت سے وحشت نہیں ہوتی؟ تو فرمانے لگے ’’ ارے صحبت محبوب میں بھی کسی کو وحشت ہوتی ہے؟ میں خلوت میں اپنے محبوب کی جلوت سے بہرہ ور ہوتا ہوں۔ ان پرکیف اور سرور آفریں لمحات میں وحشت کیسی؟‘‘

حاصلِ کلام یہ کہ جب تک انسان نفس کے شر کے تابع رہتا ہے وصال یار سے محروم رہتا ہے اور جب علائق دنیوی سے کچھ دیر منہ موڑ کر تزکیہ نفس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور قلباً و قالباً جلوت سے خلوت آراء ہوجاتا ہے تو اسے اپنے محبوب کے وصال کی دولتِ بے بہا حاصل ہوجاتی ہے۔ گویا یہ خلوتیں اپنے رب جلیل کی جلوتیں عطا کردیتی ہیں اور اگر انسان کثرت ذکر و فکر، عبادت و ریاضت اور گریہ و زاری کو اپنا مستقل شعار بنالینے کے ساتھ ساتھ محاسبہ نفس کی راہ پر استقامت سے چل نکلے تو ان جلوتوں کو دوام بھی نصیب ہوسکتا ہے اور جب ان کیفیاتِ حضور و سرور کو دوام مل جاتا ہے تو پھر انسان اس آیتِ قرآنی کا مصداق بن جاتا ہے :

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَ لَابَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللهِ.

(النور، 24: 37)

’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کر سکتی۔‘‘

اس مقام پر جلوت یار کی کیفیت، نفس انسانی میں یوں رچ بس جاتی ہے کہ وہ مخلوق کی جلوت میں رہتے ہوئے بھی جلوت محبوب کی حلاوت پاتا ہے۔ انسان کا ظاہر مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے جب کہ باطن اپنے آقا و مولا کے ساتھ اور یوں وہ انجمن میں بھی خلوت کے مزے لوٹتا ہے۔

اعتکاف کا بیان

عبادت کی نیت سے اللہ تعالیٰ کے لئے مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے۔

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔

  1. اعتکاف واجب
  2. اعتکاف سنت
  3. اعتکاف مستحب

1۔ اعتکاف واجب

کسی نے یہ منت مانی کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو میں ایک یا دو دن کا اعتکاف کروں گا اور اس کا کام ہوگیا۔ یہ اعتکاف واجب ہے اور اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ یاد رکھو کہ اعتکاف واجب کے لئے روزہ شرط ہے بغیر روزہ کے اعتکاف واجب صحیح نہیں۔

(در مختار، 2 : 129)

2۔ اعتکاف مؤکدہ

یہ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں کیا جائے گا یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبنے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہوجائے اور تیسویں رمضان کو سورج ڈوبنے کے بعد یا انتیسویں رمضان کو چاند ہونے کے بعد مسجد سے نکلے۔ یاد رکھو کہ یہ اعتکاف سنت مؤکدہ کفایہ ہے۔ یعنی اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑ دیں گے تو سب آخرت کے مواخذہ میں گرفتار ہوں گے اور اگر ایک آدمی نے بھی اعتکاف کر لیا تو سب آخرت کے مواخذہ سے بری ہوجائیں گے۔ اس اعتکاف میں بھی روزہ شرط ہے مگر وہی رمضان کے روزے کافی ہیں۔

(در مختار، 2 : 130)

3۔ اعتکافِ مستحب

اعتکاف مستحب یہ ہے کہ جب کبھی بھی دن یا رات میں مسجد کے اندر داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرے۔ جتنی دیر تک مسجد میں رہے گا اعتکاف کا ثواب پائے گا نیت کے لئے صرف دل میں اتنا خیال کرلینا اور منہ سے کہہ لینا کافی ہے کہ میں نے خدا کے لئے اعتکاف مسجد کی نیت کی۔

(فتاویٰ عالمگیری، 11 : 197)

اعتکاف مسجد کے مسنون الفاظ یہ ہیں۔

نويت سنت الاعتکاف

اعتکاف کے چند دیگر مسائل

1۔ اعتکاف کرنے والوں کے لئے بلا عذر مسجد سے نکلنا حرام ہے۔ اگر نکلے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا چاہے قصداً نکلے یا بھول کر۔ اس طرح عورت نے جس گھر میں اعتکاف کیا ہے اس کا اس گھر سے نکلنا حرام ہے۔ اگر عورت اس مکان سے باہر نکل گئی تو خواہ قصداً نکلی یا بھول کر، اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

(در مختار، 2 : 133)

2۔ مرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف کرے اور عورت اپنے اس گھر میں اس جگہ اعتکاف کرے گی جو جگہ اس نے نماز پڑھنے کے لئے مقرر کی ہو۔

(در مختار، 2 : 129)

3۔ اعتکاف کرنے والا دو عذروں کے سبب سے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے۔ ایک عذر طبعی جیسے رفع حاجت، غسل فرض اور وضو کے لئے، دوسرا عذر شرعی جیسے نماز جمعہ کے لئے جانا اگر مسجد میں نماز جمعہ نہ ہوتی ہو۔ ان دونوں عذروں کے سوا کسی اور وجہ سے مسجد سے نکلا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا اگرچہ بھول کر ہی نکلے۔

(در مختار، 2 : 133)

4۔ اعتکاف کرنے والا دن رات مسجد میں ہی رہے گا۔ وہیں کھائے، پئے، سوئے مگر احتیاط رکھے کہ کھانے پینے سے مسجد گندی نہ ہونے پائے، معتکف کے سوا کسی اور کو مسجد میں کھانے پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لئے اگر کوئی آدمی مسجد میں کھانا پینا اور سونا چاہے تو اس کوچاہئے کہ اعتکاف مستحب کی نیت کرکے مسجد میں داخل ہو اور نماز پڑھے یا ذکر الٰہی کرے۔ پھر اس کے لئے کھانے پینے اور سونے کی بھی اجازت ہے۔

(در مختار، 2 : 134)

5۔ اگر اعتکاف میں بیٹھتے وقت یہ شرط کر لی کہ مریض کی عیادت و نماز جنازہ میں جائے گا تو یہ شرط جائز ہے۔ اب اگر ان کاموں کے لئے مسجد سے باہر گیا تو اعتکاف فاسد نہ ہوگا۔ مگر دل میں نیت کرلینا کافی نہیں بلکہ زبان سے کہنا بھی ضروری ہے۔

(فتاویٰ عالمگیری، بہار شریعت، 1 : 474)

اگر مسجد گرگئی یا کسی نے زبردستی مسجد سے نکال دیا اور وہ فوراً ہی کسی دوسری مسجد میں چلا گیا تو اعتکاف فاسد نہ ہوگا۔

(فتاویٰ عالمگیری، بہار شریعت، 2 : 473)

6۔ اعتکاف کرنے والا بالکل ہی چپ نہ رہے نہ لوگوں سے بہت زیادہ بات چیت کرے، بلکہ اس کو چاہئے کہ نفل نمازیں زیادہ پڑھے، تلاوت کرے علم دین کا درس دے، اولیاء و صالحین کے حالات سنے اور دوسروں کی سنائے، کثرت سے درود شریف پڑھے اور ذکر الٰہی کرے، اکثر باوضو رہے اور دنیا داری کے خیالات سے دل کو پاک و صاف رکھے اور بکثرت رو رو کر اور گڑ گڑا کر خداوند تعالیٰ سے دعا مانگے۔

(در مختار، 2 : 135)

7۔ اعتکاف کی قضا صرف قصداً اعتکاف توڑنے ہی سے نہیں ہوتی بلکہ اگر عذر کی وجہ سے بھی اعتکاف چھوڑ دیا مثلاً بیمار ہو گیا یا بلااختیار چھوٹا جیسے عورت کو حیض یا نفاس آیا، جنون یا بے ہوشی طاری ہوئی ان صورتوں میں بھی قضا واجب ہے۔

8۔ معتکف اگر بہ نیت عبادت بالکل چپ رہے کہ چپ رہنے کو ثواب سمجھے تو یہ مکروہ تحریمی اور اگر چپ رہنے کو ثواب کی بات سمجھ کر نہ بھی چپ رہے تو حرج نہیں۔ اور بری باتوں سے چپ رہا تو چپ رہنا مکروہ نہیں، بلکہ یہ تو اعلیٰ درجے کی بات ہے کیونکہ بری باتوں سے زبان کو روکے رہنا بہرحال واجب ہے اور جس بات میں ثواب ہو نہ گناہ یعنی مباح باتیں تو یہ بھی بلاضرورت معتکف کو مکروہ ہیں، کیونکہ بلا ضرورت مسجد میں مباح کلام بھی نیکیوں کو اس طرح کھا لیتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔

(بہار شریعت، 1 : 474)

9۔ سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ اعتکاف ہو یا کوئی بھی عبادت اس میں صرف رضائے الٰہی کی نیت رکھے۔ دکھاوا، نیک نامی اور شہرت کو ہرگز ہرگز دخل نہ دے ورنہ ہر عبادت بے نور و بے رونق بلکہ ضائع و غارت ہو جائے گی اور ثواب کی جگہ گناہ، نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس کے ہر عمل میں نیک نیتی اور اخلاص کی توفیق بخشے۔ (آمین)

نوٹ: مندرجہ بالا مسائل روزہ کا آخری حصہ براہ راست جناب شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی کی کتاب ’’سامان آخرت‘‘ سے ماخوذ ہے اور پہلے حصے میں مختلف کتب فقہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔

شب قدر اور اس کی فضیلت

رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے۔ اسی رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں۔ یعنی جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گزری اس نے تراسی برس چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا اور تراسی برس کا زمانہ کم از کم ہے کیونکہ

خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ.

کہہ کے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زائد اجر عطا فرمانا چاہے گا عطا فرما دے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔

شب قدر کا معنی و مفہوم

1۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’قدر‘‘ کے معنی مرتبہ کے ہیں چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے اس لئے اسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔

2۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ چونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر و فیصلے کا قلمدان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے اس وجہ سے یہ لیلۃ القدر کہلاتی ہے۔

3۔ اس رات کو قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے :

نزل فيها کتاب ذو قدرٍ علی لسان ذي قدر علی امة لها قدر و لعل اللہ تعالیٰ انما ذکر لفظه القدر فی هذه السورة ثلاث مرات لهذا السبب

(تفسیر کبیر، 32 : 28)

’’اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قابل قدر کتاب قابل قدر امت کے لئے صاحبِ قدر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت نازل فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں لفظ قدر، تین دفعہ آیا ہے۔‘‘

4۔ لفظ قدر تنگی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اسے قدر والی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے۔

(تفسیر الخازن، 4 : 395)

5۔ امام ابوبکر الوراق ’’قدر‘‘ کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ رات عبادت کرنے والے کو صاحب قدر بنا دیتی ہے اگرچہ وہ پہلے اس لائق نہ تھا۔

(القرطبی، 20 : 131)

یہ رات کیوں عطا ہوئی؟

اس رات کے عطا کئے جانے کا سب سے اہم سبب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس اُمت پر شفقت اور آپ کی غم خواری ہے۔ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ

ان رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم اری اعمار الناس قبله او ماشاء اللہ من ذالک فکانه تقاصر اعمار امته عن ان لا يبغلوا من العمل مثل الذی بلغ غيرهم فی طول العمر؟

(موطا امام مالک، کتاب الصيام باب ماجاء فی ليلة القدر )

’’جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ لوگوں کی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپ نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کرسکیں گے؟‘‘

جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے مقدس دل کو اس معاملہ میں ملول و پریشان دیکھا تو

فاعطاه ليلة القدر خير من الف شهر.

(موطا امام مالک کتاب الصيام، باب ماجاء فی ليلة القدر)

’’پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرما دی جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔‘‘

اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔

فعجب رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم لذالک و تمنی ذالک لامته فقال يا رب جعلت امتی اقصر الاعمار واقلها اعمالا فاعطاه اللہ ليلة القدر

(تفسیر الخازن، 4 :397)

’’تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر تعجب فرمایا اور اپنی امت کے لئے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی کہ اے میرے رب میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے شب قدر عنایت فرمائی۔‘‘

ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے سامنے مختلف شخصیات حضرت ایوب، حضرت ذکریا، حضرت حزقیل، حضرت یوشع علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حضرات نے اَسی اَسی سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ صحابہ کرام کو ان برگزیدہ ہستیوں پر رشک آیا۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی :

’’اے محمد مصطفیٰ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ کی امت کے لوگ ان سابقہ لوگوں کی اَسی اَسی سالہ عبادت پر رشک کر رہے ہیں تو آپ کے رب نے آپ کو اس سے بہتر عطا فرما دیا ہے اور پھرقرات کی إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِO اس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس فرط مسرت سے چمک اٹھا۔‘‘

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل یہ کرم فرمایا کہ اس امت کو لیلۃ القدر عنایت فرما دی اور اس کی عبادت کو 80 نہیں بلکہ 83 سال چار ماہ سے بڑھ کر قرار دیا۔

امتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت

لیلۃ القدر فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ان اللہ وهب لامتی ليلة القدر لم يعطها من کان قبلهم.

(درمنثور، 6 :371)

’’یہ مقدس رات اللہ تعالیٰ نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔‘‘

پہلی امتوں میں عابد کسے کہا جاتا تھا؟

مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ پہلی امتوں میں عابد اسے قرار دیا جاتا تھا جو ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں اس امت کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ وہ فقط ایک رات کی عبادت سے ہی اس سے بہتر مقام حاصل کر لیتی ہے:

قيل ان العابد کان فيما مضی يسمي عابدا حتي يعبد اللہ الف شهر فجعل اللہ تعالیٰ لامة محمد صلی الله عليه وآله وسلم عبادة ليلة خير من الف شهر کانوا يعبدونها.

(فتح القدیر، للشوکانی، 5 : 472)

’’سابقہ امتوں کا عابد وہ شخص ہوتا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا لیکن اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کے افراد کو یہ شب قدر عطا کر دی جس کی عبادت اس ہزار ماہ سے بہتر قرار دی گئی۔‘‘

گویا یہ عظیم نعمت بھی سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے صدقہ میں امت کو نصیب ہوئی ہے۔

فضیلت شب قدر۔ ۔ ۔ احادیث کی روشنی میں

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

1. من قام ليلة القدر ايمانا و احتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه.

(صحیح بخاری، 1 : 270)

’’جس شخص نے شب قدر میں اجر و ثواب کی امید سے عبادت کی اس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘

اس ارشاد نبوی میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر، عبادت و طاعت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو، ریاکاری اور بدنیتی نہ ہو پھر یہ کہ آئندہ عہد کرے کہ برائی کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ چنانچہ اس شان کے ساتھ عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژدہ مغفرت بن کر آتی ہے۔

2۔ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ان هذا الشهر قد حضرکم وفيه ليلة خير من الف شهر من حرمها فقد حرم الخير کله ولا يحرم خيرها الا حرم الخير.

(ابن ماجہ، السنن : 20)

’’یہ جو ماہ تم پر آیا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ سارے خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتًا محروم ہو۔‘‘

ایسے شخص کی محرومی میں واقعتًا کیا شک ہو سکتا ہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر گزار لیتا ہے تو اسی سال کی عبادت سے افضل عبادت کے لئے چند راتیں کیوں نہ جاگے؟

3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :

اذا کان ليلة القدر نزل جبرئيل عليه السلام فی کبکة من الملائکة يصلون علی کل عبد قائم او قاعد يذکر اللہ عزوجل.

’’شب قدر کو جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں اور اس شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے (کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو۔‘‘

اسی بات کو سورہ القدر میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:

تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍO

(القدر، 97 : 4)

’’اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔‘‘

شب قدر کو مخفی کیوں رکھا گیا؟

اتنی اہم اور بابرکت رات کے مخفی ہونے کی متعدد حکمتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔

1۔ دیگر اہم مخفی امور مثلًا اسم اعظم، جمعہ کے روز قبولیتِ دعا کی گھڑی کی طرح اس رات کو بھی مخفی رکھا گیا۔

2۔ اگر اسے مخفی نہ رکھا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہو جاتی اور اسی رات کے عمل پر اکتفا کر لیا جاتا، ذوق عبادت میں دوام کی خاطر اس کو آشکار نہیں کیا گیا۔

3۔ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کسی انسان کی وہ رات رہ جاتی تو شاید اس صدمے کا ازالہ ممکن نہ ہوتا۔

4۔ اللہ تعالیٰ کو چونکہ بندوں کا رات کے اوقات میں جاگنا اور بیدار رہنا محبوب ہے اس لئے رات کی تعیین نہ فرمائی تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزاریں۔

5۔ عدم تعیین کی وجہ گنہگاروں پر شفقت بھی ہے کیونکہ اگر علم کے باوجود اس رات میں گناہ سرزد ہوتا تو اس سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا جرم بھی لکھا جاتا۔

6۔ ایک جھگڑا شب قدر کے اخفاء کا سبب بنا

ایک نہایت اہم وجہ اس کے مخفی کر دینے کی ایک جھگڑا بھی ہے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ اس رات کی تعیین کے بارے میں اپنی امت کو آگاہ فرما دیں کہ یہ فلاں رات ہے لیکن دو آدمیوں کے جھگڑے کی وجہ سے بتلانے سے منع فرما دیا۔

روایت کے الفاظ یہ ہیں :

خرج النبی صلی الله عليه وآله وسلم ليخبر بليلة القدر فتلاحي رجلان من المسلمين فقال : خرجت لا خبرکم بليلة القدر فتلاحي فلان و فلان فرفعت.

(بخاری، 1 : 271)

’’ایک مرتبہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب قدر کی تعیین کے بارے میں آگاہ فرمانے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے لیکن راستے میں دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں شب قدر کے بارے میں اطلاع دینے آیا تھا مگر فلاں فلاں لڑائی کی وجہ سے اس کی تعیین اٹھا لی گئی‘‘

اس روایت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ لڑائی جھگڑے کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی بہت سے نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت برکتوں اور سعادتوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔

مذکورہ روایت سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ شاید اس کے بعد تعیین شب قدر کا آپ کو علم نہ رہا۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں کیونکہ شارحین حدیث نے تصریح کر دی ہے کہ تعیین کا علم جو اٹھا لیا گیا تھا تو صرف اسی ایک سال کی بات ہے ہمیشہ کے لئے نہیں۔

امام بدر الدین عینی شرح بخاری رحمۃ اللہ علیہ میں رقم طراز ہیں :

فان قلت لما تقرر ان الذی ارتفع علم تعيينها في تلک السنة فهل اعلم النبي صلي الله عليه وآله وسلم بعد ذالک بتعيينها؟ قلت روي عن ابن عيينه انه اعلم بعد ذالک بتعيينها.

(عمدۃ القاری، 11 : 138)

’’اس سال تعیین شب قدر کا علم اٹھا لیا گیا کیا اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی تعیین کا علم رہا یا نہ رہا؟ میں کہتا ہوں حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ آپ کو اس کی تعیین کا علم تھا۔‘‘

ہمارے نزدیک آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف تعیین کا علم ہے بلکہ آپ بعض غلاموں کو اس پر آگاہ بھی فرماتے۔

ایک صحابی کو آگاہ فرمانا

سنن ابو داؤد میں حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا یا رسول اللہ!

ان لی باديه اکون فيها و انا اصلي بحمد اللہ فمرني بليلة انزلها الي هذا المسجد فقال : انزل ليله ثلاث و عشرين.

’’میں ایک ویرانے میں رہتا ہوں وہاں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نماز ادا کرتا ہوں آپ مجھے حکم دیں کہ کون سی رات آپ کے ہاں مسجد نبوی میں بسر کرنے کے لئے آؤں تو آپ نے فرمایا رمضان کی تیئیسویں رات آ جاؤ۔‘‘

یہ صحابی ہمیشہ تیئیسویں رات کو مسجد نبوی میں آ کر جاگا کرتے۔ لوگوں نے آپ کے صاحبزادے سے پوچھا کہ بتاؤ آپ کے والد اس رات کیا کرتے تھے تو انہوں نے کہا :

کان يدخل المسجد اذا صلي العصر فلا يخرج الا لحاجة حتي يصلي الصبح فاذا صلي الصبح وجد دابه علي باب المسجد فجلس عليها ولحق بباديه.

’’وہ عصر کے بعد صبح تک مسجد سے بغیر کسی حاجت کے باہر نہ آتے اور صبح اپنی سواری پر سوار ہو کر (مسجد کے دروازے پر سے) اپنے دیہات کی طرف روانہ ہو جاتے۔‘‘

اس روایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہر آدمی کے لئے شب قدر الگ الگ ہے۔ شب قدر کے بارے میں آگاہ کرنا دور صحابہ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ غلاموں پر اس شفقت کا سلسلہ تاقیامت جاری ہے۔ ہم یہاں ایک واقعہ کے تذکرہ پر اکتفا کرتے ہیں۔

شب قدر کے تعیین کے سلسلہ میں ایک ایمان افروز واقعہ

1965ء میں (پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کے) والد گرامی حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رمضان المبارک میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور آخری عشرہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کے سامنے مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھے۔ رمضان المبارک کی 25 ویں شب نصف شب کے قریب اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اٹھ یہ رات شب قدر ہے‘‘ انہوں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس میں ایک گھڑی (ٹائم پیس) ہے جس پر اس وقت تقریبًا بارہ بج کر پچاس منٹ کا وقت تھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ نہ صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب قدر کی اطلاع فرمائی ہے بلکہ اس رات کی خصوصی قبولیت کی ساعت کی بھی نشاندہی فرما دی ہے چنانچہ میں جلدی سے اٹھا، وضو کیا۔ ساتھ ہی راولپنڈی کے ایک نومسلم پروفیسر جو سکھ مذہب ترک کرکے مسلمان ہوئے تھے بھی معتکف تھے۔ میں نے چاہا کہ ان مبارک لمحات کی خبر ان کو بھی کروں لیکن یہ سوچ کر کچھ دیر کے لئے رک گیا کہ کہیں یہ افشائے راز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نامنظور نہ ہو لیکن پھر یہ سوچ کر انہیں آگاہ کرنے کے لئے ان کی طرف چلا ہی گیا کہ یہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ اقدس کے مہمان ہیں اگر منع کرنا مقصود ہوتا تو آپ ایسا حکم فرما دیتے۔ جب میں اس ارادے سے ان کے قریب گیا تو وہ میرے قدموں کی آہٹ سن کر بیدار ہو گئے میں نے ان سے کہا ’’پروفیسر صاحب! اٹھیں کیونکہ یہی رات لیلۃ القدر ہے‘‘ وہ مسکرا کر کہنے لگے ’’ہاں! اجابت کی گھڑی بارہ بج کر پچاس منٹ پر ہے‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’آپ کو کس نے بتایا؟ کہنے لگے ’’جس ہستی کے در پر آپ مہمان ہیں میں بھی انہیں کا مہمان ہوں آپ تو صرف ایک وطن چھوڑ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پر آئے ہیں جب کہ میں نے اس در کی غلامی کے لئے دو ہجرتیں کی ہیں ایک اپنے مذہب سے اور دوسری اپنے وطن سے۔ لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بھی اپنی نوازشات کریمانہ کا مستحق قرار دیا اور دولت دیدار سے نوازتے ہوئے اس مبارک گھڑی کے متعلق آگاہ فرما دیا ہے۔ (یہ واقعہ پروفیسر صاحب نے ایک خطاب میں بیان فرمایا)

شبِ قدر کی تعیین کے بارے میں تقریبًا پچاس اقوال ہیں۔ ان میں سے دو اقوال نہایت ہی قابل توجہ ہیں۔

1۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

تحروا ليلة القدر فی الوتر من العشر الاواخر من رمضان

(بخاری، الصحیح، 1 : 270)

’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘

چونکہ اعتکاف کا مقصد بھی تلاش لیلۃ القدر ہے اس لئے ان آخری ایام کا اعتکاف سنت قرار دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب تک اللہ تعالیٰ نے اس شب قدر کی تعیین سے آگاہ نہیں فرمایا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی تلاش کے لئے پورا رمضان اعتکاف کرتے تھے لیکن جب آگاہ فرما دیا تو وصال تک صرف آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے :

2۔ رمضان المبارک کی ستائیسویں (27) رات شب قدر ہے۔ جمہور علماء کرام کی یہی رائے ہے۔ امام قرطبی فرماتے ہیں :

قد اختلف العلماء فی ذالک والذي عليه المعظم انها ليلة سبع وعشرين

(تفسیر القرطبی، 20 : 134)

’’علماء کا شب قدر کی تعیین کے بارے اختلاف ہے لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ یہ رات (رمضان المبارک کی) ستائیسویں رات ہے۔‘‘

علامہ آلوسی لکھتے ہیں :

وکثير منهم ذهب الی انها الليلة السابعه من تلک الاوتار .

(روح المعانی، 30 : 220)

’’علماء کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ طاق راتوں میں سے ستائیسویں ہے۔‘‘

ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس اور قاری قرآن حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کی بھی یہی رائے ہے۔

حضرت زو بن جیش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جو شخص پورا سال عبادت کرے گا وہ شب قدر کو پا لے گا۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جانتے ہیں کہ شب قدر رمضان کی آخری راتوں میں سے ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے لیکن آپ نے اس کا ذکر اس لئے کر دیا تاکہ لوگ فقط انہی راتوں کو نہ جاگیں بلکہ پورا سال عبادت کریں اور اس کے بعد حلف اٹھا کر کہا کہ وہ رات ستائیسویں ہی ہے میں نے پوچھا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اس کی علامت بیان فرمائی ہے وہ اسی رات میں پائی جاتی ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ستائیسویں کو شب قدر قرار دیتے ہوئے تین دلیلیں بیان کرتے تھے۔

1۔ لیلۃ القدر کے الفاظ نو (9) حروف پر مشتمل ہیں اور یہ الفاظ اس سورہ مبارکہ میں تین دفعہ آئے ہیں جن کا مجموعہ ستائیس بن جاتا ہے۔

امام فخر الدین رازی نے آپ کی یہ دلیل ان الفاظ میں بیان کی ہے :

انه قال ليلة القدر تسعة حروف و هو مذکور ثلاث مراة فتکون السابعة والعشرين.

(تفسیر کبیر، 32 : 30)

’’لیلۃ القدر کے نو (9) حروف ہیں اور اس کا تذکرہ تین دفعہ ہوا ہے اور مجموعہ ستائیس (27) ہوگا۔‘‘

2۔ سورۃ القدر کے کل تیس (30) الفاظ ہیں جن کے ذریعے شب قدر کے بارے میں بیان کیا گیا ہے لیکن اس سورت میں جس لفظ کے ساتھ اس رات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ (ھییّ) ضمیر ہے اور یہ لفظ اس سورت کا ستائیسواں لفظ ہے۔

ان السورة ثلاثون کلمة وقوله (هی) هی السابعة وعشرون منها.

(تفسیر کبیر، 32 : 30)

’’سورت کے کل کلمات تیس ہیں (اور ان میں) ھییّ ستائیسواں کلمہ ہے۔‘‘

اسی دلیل کو امام ابو بکر الوراق نے یوں بیان فرمایا ہے کہ رمضان کی تیس راتوں کی طرح اس سورت کے بھی تیس الفاظ ہیں گویا ہر لفظ رمضان کی ایک رات پر دال ہے۔ لہٰذا ان میں سے ھییّ ستائیسواں لفظ ہونے کی وجہ سے ستائیسویں رات پر دلالت کرتا ہے۔

(تفسیر القرطبی، 10 : 136)

3۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے شب قدر کی تعیین کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا :

احب الاعداد الی اللہ تعالٰی الوتر واجب الوتر اليه السبعة فذکر السموات السبع والارضين السبع والاسبوع ودرکات الناروعدد الطواف.

(تفسیر کبیر، 32 : 30)

’’اللہ تعالیٰ کو طاق عدد پسند ہے اور عددوں میں سے بھی سات کے عدد کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کی تخلیق میں سات کے عدد کو نمایاں کر رہا ہے مثلًا آسمان سات، زمین سات، ہفتہ کے دن سات، طواف کے چکر ساتھ وغیرہ۔‘‘

شب قدر کا وظیفہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ شب قدر کا وظیفہ کیا ہونا چاہئے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ کی تلقین فرمائی :

اللهم انک عفو تحب العفو فاعف عنی.

’’اے اللہ! تو معاف کر دینے والا ہے اور معافی کو پسند فرمانے والا ہے۔ پس مجھے بھی معاف کردے۔‘‘

تبصرہ