شہراعتکاف میں 27 ویں شب کا عالمی روحانی اجتماع 2017ء

منہاج القرآن انٹرنیشنل کے شہراعتکاف میں 27 ویں شب رمضان لیلۃ القدر کا عالمی روحانی اجتماع 22 جون 2017ء کو جامع المنہاج بغداد ٹاون میں منعقد ہوا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی خطاب کیا۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صاحبزادہ حماد مصطفیٰ قادری اور صاحبزادہ احمد مصطفیٰ العربی نے پروگرام میں خصوصی شرکت کی۔ ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈا پور، امیر تحریک مسکین فیض الرحمن درانی سمیت منہاج القرآن کے قائدین، ملک بھر سے علماء و مشائخ اور مختلف طبقہ ہائے فکر سے معزز شخصیات بھی مہمانوں میں شامل تھیں۔

شہراعتکاف کے ہزاروں معتکفین کے ساتھ ملک بھر سے عشاقان مصطفیٰ کی بڑی تعداد نے عالمی روحانی اجتماع میں جوق در جوق شرکت کی۔ بیرونی شرکاء کے لیے اجتماع میں بڑی سکرینیں اور پروجیکٹر لگا کر خصوصی انتظامات کیے گئے۔ منہاج ٹی وی نے عالمی روحانی اجتماع براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا جبکہ پاک نیوز نے ’’شب توبہ‘‘ کے ٹائٹل سے براہ راست نشر کیا۔

جامع المنہاج میں نماز تراویح اور صلوۃ التسبیح کا باجماعت اہتمام کیا گیا۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز شب سوا گیارہ بجے قاری اللہ بخش نقشبندی کی تلاوت سے ہوا۔ ثناء خوانوں میں سے شکیل احمد طاہر، شہزاد برادران، محمد افضل نوشاہی اور ظہیر بلالی برادران نے نعت خوانی کی۔ صاحبزادہ حماد مصطفیٰ القادری نے عربی نعت یانورالعین مخصوص انداز میں پڑھی، جسے بہت پسند کیا گیا۔ نائب ناظم اعلیٰ تنظیمات انجینئر رفیق نجم سے شیخ الاسلام اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی نئی شائع ہونے والی کتب کا تعارف پیش کیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے خطاب سے پہلے گوشہ درود کے پڑھے جانے والے درود پاک کے حوالے سے بتایا کہ اس نظام کے تحت اب تک مجموعی طور پر ایک کھرب 60 ارب، 623 کروڑ سے زائد درود پاک پڑھا جا چکا ہے۔ اسطرح اب تک 8 ہزار 509 گوشہ نشین گوشہ درود میں بیٹھ چکے ہیں۔

خطاب شیخ الاسلام

ڈاکٹر طاہرالقادری کا خطاب شب سوا بارہ بجے شروع ہوا، آپ نے ’’عشق الہی‘‘ (ارادہ اور محبت) کے موضوع پر گفتگو کی۔

مراد اور مرید

اللہ رب العزت نے سورۃ البقرہ میں ایمان والوں کی شدید محبت کو اہل ایمان کی علامت قرار دیا۔ اللہ نے سورہ آل عمران میں فرمایا کہ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں، جو جو اللہ سے محبت کرتے ہیں جبکہ کچھ وہ بندے ہیں، جن سے اللہ خود محبت کرتا ہے۔ جو اللہ سے محبت کریں تو وہ مرید ہو جاتے ہیں، لیکن جن سے اللہ محبت کرے وہ مراد بن جاتے ہیں۔

تحریک منہاج القرآن میں مرید کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ یہاں مرید نہیں ہمارے ہاں رفیق ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس سنگت اور ساتھی ہوتے ہیں۔ منہاج القرآن میں مرید صرف اللہ کا بنایا جاتا ہے۔ میں اور سب ملکر اللہ کا مرید بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

مرید کون ہے؟

جب ارادے میں خالصیت ہو جائے تو اسے مرید کہتے ہیں۔ اللہ کی طلب کے لیے جب دل بیدار ہو جائے تو اسے ارادہ کہتے ہیں۔ جب دل اللہ کی محبت میں اڑنے لگے تو اسے ارادہ کہتے ہیں۔ مرید وہ ہے، جس کی زندگی میں اللہ کی طلب اور چاہت کے علاوہ باقی سب کچھ فوت ہو جائے۔

حضور غوث الاعظم نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرمایا کہ مرید وہ ہوتا ہے کہ جو اللہ کے لیے اپنے ارادے میں خالص ہو جائے تو اسے مرید کہتے ہیں۔ درجات، جنت اور ثواب کے ارادہ میں نہیں بلکہ خالص اللہ کے لیے اور اس مولا سے صرف اسی کو چاہو۔

سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی سے باری تعالیٰ نے پوچھا کہ اے بایزید تم کیا چاہتے ہو، بایزید نے جواب دیا کہ مولا یہ چاہتا ہوں کہ جو تو چاہتا ہے، میں بھی وہی چاہوں۔ جو تو چاہتا ہے، وہ میری چاہت بن جائے اور جو تیرا منشاء ہو وہی میرا منشاء بن جائے۔

ارادہ اور محبت

ارادہ کی خالصیت نصیب ہو جائے تو محبت ملتی ہے۔ محبت کی علامت ہے کہ یہ دل کی سختی کو پگھلا کر نرم کر دیتی ہے۔ جس کو اللہ سے محبت ہو جائے تو وہ ہر اس عمل سے محبت کرتا ہے، جس سے اللہ کو محبت ہو۔ وہ بندہ دنیا سے محبت کرتا ہے، دنیا کے مال سے نہیں۔ محبت دل کو صاف کر دیتی ہے۔ عاشق کے دل میں اللہ بستا ہے، جس دل میں اللہ بسے گا تو وہ دل سخی ہو جائے گا۔ جواد ہو جائے گا۔ جب اللہ کیساتھ محبت کا رشتہ قائم ہو جائے تو ساری زندگی بدل جاتی ہے۔ زندگی میں تکبر نہیں تواضع، سختی نہیں نرمی، کنجوسی نہیں جود آ جاتا ہے۔ محبت امید نہیں مانگتی۔ محبت صلہ نہیں مانگتی۔ محبت وفا نہیں مانگتی۔

انبیاء بھی مرید

آانبیاء میں کئی نبی مرید تھے۔ انیباء علیھم السلام میں موسیٰ علیہ السلام مریدوں میں سب سے اونچے درجہ پر تھے۔ موسیٰ نے عرض کہ مولا میرا سینہ کھول دے۔ حضور مرید بھی تھے اور مراد بھی تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے ایسا مراد بنایا۔ جس کے لیے قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ محبوب ہم نے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا؟

موسیٰ علیہ السلام کی ارادت جب کمال پر پہنچی جب چالیس راتیں طور پہاڑ کی چوٹی پر گزاریں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے پکارا کہ باری تعالی مجھے اپنا آپ دکھا۔ ادھر آقا علیہ السلام سے اللہ نے ارشاد فرمایا کہ محبوب ہم بار بار آپ کے چہرہ کا پلٹنا دیکھ رہے ہیں۔ محبوب ہم ہر وقت تجھے ہی تکتے رہتے ہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ ایسی توفیق دے کہ ایسے عمل کروں کہ تو راضی ہو جائے۔ محبوب سے اللہ نے فرمایا کہ محبوب آپ کو اتنا کچھ عطا کروں کہ آپ راضی ہو جائیں۔

اللہ کا معاملہ

قرآن میں ہے کہ بندہ اللہ رب العزت کے ساتھ جیسا گمان کر لے تو اللہ اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہے۔ اولیاء و عرفاء نے فرمایا کہ جو اللہ کے لیے ہو جائے تو اللہ اس کے لیے ہو جاتا ہے۔ جو اللہ کے کام میں لگ جائے تو اللہ اس کے کام میں لگ جاتا ہے۔ جو اللہ کی یاد میں لگ جائے تو اللہ اس کی یاد میں لگ جاتا ہے۔ جو اللہ کی محبت میں لگ جائے تو اللہ اس کی محبت میں لگ جاتا ہے۔ جو اللہ کی رضا کا طلب گار بن جائے تو اللہ اس بندے کی رضا میں لگ جاتا ہے۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ اس مقام پر ہم پہ سبقت لے گئے، کیا طریقہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا کو دیکھا کہ کچھ آخرت اور کچھ جنت کے طالب ہوئے لیکن میں نے خود کو مولا کا طالب بنا لیا۔ جو بندہ اللہ کی محبت میں فنا ہوجائے تو پھر اس بندے کی اپنی کوئی جھلک اور مرضی نہیں رہ جاتی۔ ساری مرضی مولا کی ہوجاتی ہے۔

سیدنا فاروق اعظم

آپ فرماتے ہیں کہ جب حضور سے رشتہ جڑا ہے کہ مکھن سے بڑھ دل نرم ہو گیا ہے۔ اللہ کے دشمنوں کےساتھ میرا دل انتہائی پتھر دل ہے۔ جب سے محبت کا راز سمجھ میں آیا ہے تو تب سے نہ جنت اور دوزخ کا خیال آتا ہے، اس مولا کی مرضی جہاں چاہے پھینک دے۔

حضرت عبداللہ بن جعفر

محبت اور عشق دنیا اور دنیاداری سے بےزاری کا نام ہے۔ جو محبت اور عشق میں ہوتے ہیں تو ان کے رویے بدل جاتے ہیں۔ آپ کے پاس تین روٹیاں تھی، کہیں دور سے ایک کتا آیا اور وہ ایک دفعہ ایک، پھر دوسری اور تیسری روٹی بھی کھا گیا۔ پوچھا گیا کہ تو نے اپنے لیے روٹی کیوں نہیں بچائی۔ فرمایا کہ ہمارے ہاں کتے نہیں آتے۔ اگر وہ آیا تو کہیں دور سے امید لے کر آیا ہے، اس لیے پتہ نہیں اس کو کتنی بھوک تھی۔ ساری روٹیاں اسے کھلا دیں۔ محبت اور عشق زندگی کے زوائیے بدل دیتے ہیں۔

حضرت سری سقطی

ایک شخص حضرت سری سقطی کے پاس آیا اور پوچھا کہ کون سا عمل اللہ کے بہت قریب ہے۔ آپ سوال سن کر رو پڑے کہ تمہارے جیسے لوگ بھی یہ پوچھتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ سب سے بہتر عمل یہ ہے کہ اللہ جھانک کر تمہارے دل کو دیکھے اور ساری کائنات میں مولا کو کوئی اور شے نظر نہ آئے تو یہ عمل بندے کو مولا سے قریب کردیتا ہے۔

حضرت ذوالنون مصری

ایک سفر میں تھے، فرماتے ہیں کہ دیکھا کہ لبنان کے پہاڑوں میں ایک عاشق نماز پڑھ رہا تھا۔ نماز سے فارغ ہوا تو وہ پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔آ پھر پوچھا کہ میرے لیے کوئی نصحیت اور دعا کر دیں۔ اللہ کے عاشق نے فقط یہ دعا کی کہ اللہ تجھے اپنے قرب سے مانوس کر دے۔

قرب کی لذت

ہم اپنی ذات اور مقام و مرتبہ کے پجاری ہیں۔ عاشق کسی مقام کے پیچھے نہیں بلکہ وہ مولا کی خاطر سائل اور منگتا بن کر کبھی مالک بن دینار بن جاتا ہے اور کبھی ذوالنون مصری بن جاتا ہے۔ عاشق کو اللہ کے قرب کی لذت مل گئی تو وہ دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ آج ہمیں دنیا کے بتوں کو توڑ کر اللہ کے قرب کی لذت کو اپنانا ہوگا۔

عالمی روحانی اجتماع کا باقاعدہ اختتام دعا سے ہوا۔ اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انتہائی رقت امیز دعا کروائی، جس سے ہر آنکھ آشکبار ہوئی۔ اجتماع میں پاکستان کی ترقی و سلامتی اور عالم اسلام کی خوشحالی کے لیے بھی خصوصی دعائیں کی گئیں۔

تبصرہ