دین کا خلاصہ اخلاق حسنہ ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شہراعتکاف۔ 24 رمضان المبارک، 20 جون 2017ء

خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

موضوع: حلم (اخلاق حسنہ)

حلم

سارے دین کا خلاصہ اخلاق حسنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حلم کو اپنی صفت قرار دیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بردبار ہے۔ اللہ نے بندے کو بھی سکھایا کہ بندے تو بھی لوگوں کو معاف کرنے کی صفت اپنا۔ اخلاق حسنہ یہ ہے کہ بندہ اللہ کے اخلاق کو اپنا لے۔ جس بندے میں اللہ کے اخلاق آگئے اور وہ سراپا خلق عظیم بن گئی تو اس ذات گرامی کا نام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

حقوق العباد مقدم کیوں؟

قرآن میں اخلاق ابراھیم علیہ السلام بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ابراھیم بڑا تحمل مزاج اور بردبار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراھیم علیہ السلام کے تحمل مزاج ہونے کو پہلے بیان کر کے حقوق العباد کو اپنے حق سے مقدم کر دیا۔ یہ قرآن کے فصحیح پن کی زندہ مثال ہے۔ اللہ کا اصول ہے کہ اگر بندہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق نہیں رکھتا، سختی کرتا ہے تو پھر وہ اللہ کی بارگاہ میں جتنا بھی رو رو کر دعا کرتا پھرے، اللہ کو اس کے رونے دھونے سے کوئی سروکار نہیں۔ قرآن کا فیصلہ ہے کہ پہلے اللہ کے بندوں کیساتھ اپنا اخلاق درست کر، حلم پیدا کر پھر اپنے رب کو منا، تو تیرے اس طریقہ کو اللہ پسند کرتے ہوئے تیری دعائی بھی قبول کرے گا۔

صالح کون؟

حضرت ابراھیم علیہ السلام نے 90 برس کی عمر میں دعا کی کہ میرے اللہ مجھے نیک صالح اولاد دے۔ جب ابراھیم علیہ السلام نے صالح فرزند کی دعا کی تو جواب آیا کہ ہم تمہیں بردبار اور تحمل مزاج بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ پتہ چلا کہ تحمل مزاج اور بردبار لوگ ہی صالح ہوتے ہیں۔ جو نرم طبعیت نہیں رکھتا وہ صالح نہیں۔ طبعیت میں تواضع اور انکساری بردباری کے بغیر نہیں آتی۔ اس کے لیے پہلے طبعیت سے غصہ نکالنا ہوگا کیونکہ غصہ آگ سے نکلا تھا اور شیطان بھی آگ سے بنا۔

دوزخ حرام

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر اس شخص پر دوزخ حرام کر دی گئی، جس کی خوش اخلاقی کے باعث لوگ اس کے قریب تر ہوتے ہیں اور اس سے دور نہیں بھاگتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگ دور سے دیکھتے تو ان پر رعب و دبدبہ طاری ہوجاتا۔ جب وہی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آتے تو پھر آپ کی مجلس میں اٹھ کر واپس جانے کو دل نہ کرتا۔

نرم مزاجی

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے امتی کو نرم مزاج اور وقار والا دیکھنا چاہتے ہیں۔ دین کے داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ وقار کے ساتھ زندگی گزارے۔ اچھا صاف ستھرا اور خوبصورت لباس پہنے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتنی نظافت تھی کہ جس راہ سے گزر جاتے تو خوشبو بتاتی کہ آپ یہاں سے گزرے ہیں۔ حضور صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نرمی جس شے میں آ جائے تو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس شے سے نرمی نکل جائے تو اس میں بدصورتی آ جاتی ہے۔ بردبار بندے کا یہ درجہ ہے کہ ساری رات قیام کرنے والے اور ساری زندگی روزہ رکھنے والے کو جو درجہ ملتا ہے تو بردباری کرنے والے کا بھی یہی درجہ ہے۔

وقار

دین کے داعی اور علماء میں سے آج جو لوگ دو دو ٹکے کی خاطر حکمرانوں کے سامنے جھولیاں پھیلائے کھڑے ہیں۔ تو ان کے پاس کون سا وقار اور دین ہے۔ جس عالم کے علم سے وقت کے حکمران کانپتے نہیں تو سمجھ لیں کہ اسی کے پاس وقار نہیں۔ جس کے سامنے وہ کانپ اٹھیں تو وقار والا اور صاحب علم ہے۔ عالم کی نشانی یہ ہے کہ اس کے پاس نہ تو تجوریاں ہوتی ہیں، نہ آف شوور کمپنیاں اور نہ ہی پانامے۔ اس کے پاس صرف وقار ہوتا ہے، جس کے سامنے حکمرانوں کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔

قرآنی فصاحت و بلاغت

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں 114 سورتیں دیں۔ ارب جو ساری دنیا میں بہت زیادہ فصحیح و بلیغ تھے، لیکن وہ بھی قرآن کی فصاحت و بلاغت کے مقابلہ میں کوئی دس آیات بھی نہ لا سکے۔ کون پیدا ہوا ہے اس کائنات میں جو قرآن جیسا کلام دے سکتا۔ یہ قرآن کا زندہ معجزہ ہے۔ اس طرح قرآن میں جہاں سکون اور راحت کی بات ہو گی تو وہاں کسی ایک مقام پر بھی شد نہیں آئے گی۔ یہ فصاحت و بلاغت کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔

تبصرہ