شر اعتکاف 2009ء : آٹھواں دن

عصر حاضر میں دعوت و اقامت دین

شہراعتکاف میں 8 ویں دن کا آغاز بھی حسب معمول نماز فجر اور ذکر اذکار کے وظائف سے ہوا۔ گزشتہ روز 18 ستمبر 2009ء کی شب نماز تراویح کے بعد محفل قرات منعقد ہوئی جس میں ایرانی قراء نے خصوصی شرکت کی۔ ایران سے ’’القدیر تواشی‘‘ گروپ کے قراء نے تلاوت قرآن پاک کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا۔ طواشی گروپ نے عربی و فارسی میں نعت خوانی بھی کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے مخصوص انداز میں اسماء الحسنیٰ بھی پیش کیے۔ شیخ الاسلام کا خطاب ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوا۔ آپ نے اپنے خطاب میں کتب بینی کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں ہر ملک سے کتابیں خریدتا ہوں اور چودہ چودہ صندوق کتابوں کے لے کر آتا ہوں۔ آپ نے کہا کہ یہ شوق زمانہ طالب علمی سے شروع ہوا اور آج تک ویسے ہی برقرار ہے۔ آپ نے کہا کہ کتب پڑھنے سے بندہ اُس دور کی مجلس میں چلا جاتا ہے۔ آپ نے کہا کہ تحریک منہاج القرآن کے عالمگیر پیغام کو دنیا بھر میں پھیلایا جائے تا کہ دین کی حفاظت کے فریضہ میں ہر کوئی شریک ہو سکے۔ اس حوالے سے آپ نے کہا کہ کارکنان اس سال پندرہ لاکھ وابستگان پیدا کریں اور آئندہ سالوں میں اس ہدف کو بڑھائیں۔ ہر معتکف اپنے گھر میں حلقہ درود قائم کرے۔

خطاب شیخ الاسلام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے "عصر حاضر میں دعوت و اقامت دین" کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ دنیا میں ایک زمانہ آئے گا جب ایسے لوگوں کو اقتدار دیا جائے جو خواہشات نفس پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ یہ لوگ بے حمیت ہوں گے اور کرپٹ ہوں گے۔ دوسری جانب جو لوگ صاحب رائے ہوں گے وہ قرآن و سنت کی بجائے صرف اس چیز کو بیان کریں گے جو ان کو سوچ آئے گی۔ یہ لوگ گھمنڈ اور تکبر کریں گے اور کسی دوسرے کی بات نہیں سنیں گے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ جب ایسا دور آ جائے تو یہ دین کی بربادی کا دور ہوگا۔ عوام کی بات کا احترام نہیں کریں گے، کمینے دنیا داروں کے پیچھے کتے بن کر پھر ر ہے ہوں گے۔ ان کی کوئی اپنی سوچ نہیں ہوگی، ان کو جہاں لالچ نظر آئے گا اس طرف نکل جائیں گے۔

آج جمہوریت کے نام پر عوام عوام ہو رہا ہے۔ آج عوام ہی نے پاکستان کے مقدر کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میں آج گلیاں اور نالیاں بنانے کے لیے ووٹ خریدے جاتے ہیں۔ نہ کوئی خیر دیکھتا ہے اور نہ کوئی شر دیکھتا ہے۔ ایک آٹے کے تھیلے پر ووٹ بک رہے ہیں۔

شیخ الاسلام نے سنن ابی داؤد کی حدیث نمبر 4341 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ لوگو ایک ایسا زمانہ آئے گا جب دین کی اقدار کو ادھیڑ دیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے حالات میں دین کے لیے کام کرنے والے ایک آدمی کو 50 آدمیوں کے برابر اجر ملے گا۔ صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا اجر اس دور کے 50 لوگوں کے برابر ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اس دور کے نہیں بلکہ تمہارے یعنی صحابہ کے دور کے 50 آدمیوں کے برابر ثواب ملے گا۔

سنن ابی داؤد کی حدیث نمبر 4342 میں ہے کہ ایک زمانہ وہ آئے گا جب معاشرے سے اچھے لوگ چلیں جائیں گے۔ اس دور میں رذیل لوگ اور گھٹیا لوگ رہ جائیں گے۔ انہوں نے جو وعدے اللہ، رسول اور دین سے کیے ہوں گے، ان سب میں خلط ملط ہوجائے گا اور اس میں فساد بپا ہو جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس زمانے کی حدیث سے آقا علیہ السلام کے سامنے آج کے پاکستان کا نقشہ تھا۔ آپ نے کہا کہ آج اسلام کو پندرہ سو سال گزر گئے ہیں، اگر دنیا 15 کروڑ سال بھی ہوتی تو آقا علیہ السلام کے سامنے اس کا نقشہ بھی ایسے ہی ہوتا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اس زمانے میں تم عوام کی پرواہ نہ کرنا بلکہ دین کی پیروی کرنا۔

سنن ابی داؤد کی حدیث نمبر 4343 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صحابہ آقا علیہ السلام کی ملجس بیٹھے تھے، انہوں نے کہا کہ ہم نے فتنوں کے دور کا ذکر کیا تو آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ تم لوگوں کو دیکھو، ان کی وعدوں میں پاسداری نہیں ہوگی۔ ان کی امانت میں خیانت شروع ہو جائے گی۔ صحابی عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب ایسا دور آ جائے تو کیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایسے دور میں عوام الناس کی پرواہ نہ کرنا، عوام کو چھوڑ کر دین کی پیروی کرنا۔

سنن ابی داؤد کی حدیث مبارکہ 4344 کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے کہا کہ آقا علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ظالم اور جابر حکمران کے دور میں کلمہ حق بلند کرنا سب سے افضل فریضہ اور جہاد ہے۔

سنن ابی داؤد کی حدیث 4345 میں ہے کہ صحابی کندی نے کہا کہ جب زمین پر کثرت کے ساتھ گناہ ہونے لگیں تو اس وقت جو شخص ان گناہوں کو دیکھے اور اس کو نا پسند کرے اور پھر اس سے روکے تو اس کا درجہ یہ ہوگا کہ وہ اس گناہوں سے دور ہوگا۔ دوسرا شخص جو ان گناہوں سے دور تو رہا لیکن اس کا اعلانیہ منع نہیں کرتا اور خاموشی اختیار کرتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے وہ خود ان گناہوں میں شریک ہوا۔

سنن ابی داؤد کی حدیث نمبر 4345 میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کہ لوگوں پر اس وقت تک ہلاکت اور عذاب نہیں آئے گا جب تک لوگ گناہوں، عیبوں، خطاؤں اور دین کی نافرمانیوں کی کثرت نہ کر دیں۔ دنیا میں عذاب اور ہلاکت اس وقت آئے گی جب دین کی نافرمانیوں اور گناہوں کی کثرت ہوجائے گی تو اس وقت کا انتظار کرو۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ فتنوں کے تمام دور کہیں ہزار سال تک جاری رہیں گے۔ آپ نے سنن ابی داؤد میں کتاب الملاحم کی پہلی حدیث اور مجموعی طور پر حدیث 4291 میں ہے ۔ حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جہاں فتنوں کے دور ہوں گے، جہالت کے دور ہوں گے، ظلم کے دور ہوں گے، وہاں اللہ رب العزت نے امت کی حفاظت کے لیے، دین کی حفاظت کے لیے، امر بالمعروف کے لیے، برے اعمال کو درست اعمال میں بدلنے کے لیے، بدعقیدگی کو روکنے کے لیے، اللہ سے ٹوٹا ہوا تعلق پھر سے جوڑنے کے لیے، آقا علیہ السلام سے تعلق عشق پھر سے جوڑنے کے لیے اور مخلوق کے تعلق کو بحال کرنے کے لیے ہر صدی کے شروع میں ایک ایسے شخص کو بھیجا جائے گا جو مایوس لوگوں کو خوشخبری دے گا، اللہ تعالیٰ سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر سے بحال کرے گا۔

اس وقت ایک مجدد ہوگا اور اس کی ساری جماعت بھی مجدد ہوگی۔ دین کی بحالی اور تجدید کے کام میں شریک ہونے والے لاکھوں کارکنان کو برکت بھی ملے گی۔ یہ اللہ رب العزت کے عذاب ٹل جانے کی سبیل ہوگی۔ آپ نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تحریک منہاج القرآن اس صدی کی تجدیدی تحریک ہے۔ اس دور میں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ختم ہوتی جا رہی تھی، نعت پڑھنے کو بدعت قرار دیا جانے لگا تھا، مخالفین طعنے دینے لگے تھے، کیونکہ قرآن کا علم اور دلیل کی کمی ہو گئی تھی، قرآن و حدیث کے علم کی بجائے حکایتیں بیان ہونے لگی تھیں۔ مخالف سمجھتے تھے کہ ہم قرآن و سنت کے اصل وارث ہیں۔ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت خوانی کو بدعت کہتے تھے وہ آج خود میلاد کرا رہے ہیں۔ آج ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، آج حق سامنے آ گیا ہے۔ آج ساری دنیا میں گلی گلی کوچے کوچے میں میلاد کی محافل ہیں۔ اب کوئی علمی طور پر کوئی حملہ آور نہیں ہوتا۔ اس کام میں تحریک منہاج القرآن نے علمی، عملی اور روحانی طور پر اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔

آپ نے کہا کہ اس سے پہلے لوگ کہاں ہزاروں کی تعداد میں اعتکاف بیٹھتے تھے۔ یہ تحریک منہاج القرآن کو سعادت حاصل ہے کہ اس نے اقابرین کا زمانہ پیدا کر دیا ہے۔ آج لوگوں میں توحید کا تصور نکھر کر سامنے آ گیا اور اس کے مقابلہ میں شرک و بدعت اپنی موت مر گئی ہے۔ محبت رسول، ادب صحابہ اور اہل بیت کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے منہ بند ہو گئے ہیں۔ خارجیت کی وجہ سے شان اہل بیت اور ادب صحابہ کو علیحدہ علیحدہ کیا جا رہا تھا، تحریک منہاج القرآن نے علمی و عملی طور پر اس کا دفاع کیا، شان اہل بیت اور شان صحابہ کو یکجا کر کے خارجیت کے عزائم کو نیست و نابود کر دیا۔ اس تحریک نے ایمانی جرات کے ساتھ لوگوں کو وہ شعور دیا کہ آج الحمدللہ ہمارے پاس دین کی حفاظت کے تمام ہتیھار ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے نوجوان نسل کے تقاضوں کو پورا کیا، وہ نوجوان نسل جو دین سے دور ہو گئی تھی واپس پلٹ آئی ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ تحریک منہاج القرآن نے اسلام کی سائنسی بنیادوں پر تشریح کی، روحانی تشریح کی۔ انہوں نے کہا کہ جو شخص دل کے راستے سے دین کو سمجھنا چاہتا تھا اس کے لیے دل کے دروازے کھول دیئے۔ جو عقلی طور پر دین سمجھنا چاہتا تھا اس کو عقلی دلائل دے دیے اور جو روحانی طور پر سمجھنا چاہتا تھا اسے روحانی طور پر سمجھا دیا۔ آج پاکستان بھر میں سینکڑوں مقامات پر روزانہ دروس قرآن ہو رہے ہیں، دنیا بھر میں گوشہ ہائے درود قائم ہیں جہاں ہر وقت درود پاک پڑھا جا رہا ہے۔ منہاج القرآن کے مرکز پر گوشہ درود میں بغیر کسی انقطاع کے ہر وقت آقا علیہ السلام کی ذات پر دورد پاک پڑھا جا رہا ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے کارکنو! یہ خوشخبری آپ کے حصہ میں آئی ہے کہ دین کی تجدید کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو منتخب کیا ہے۔ دین کی حفاظت کا یہ کام ایشیا سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر اد ا کرنا چاہیے۔ اس طرح منہاج القرآن علماء کونسل، منہاج ویمن لیگ، منہاج یوتھ لیگ سمیت تحریک کا ہر فورم مبارکباد کا مستحق ہے جو عظیم کام میں شریک ہے۔

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ لوگو! امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے رہو۔ اسے جاری رکھو، اگر ایسا نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسے حکمران مسلط کر دے گا جو اہل شر ہوں گے، پھر وہ اپنی حکومت کے ذریعے تمہیں انتہائی اذیت ناک عذاب دیں گے۔ پھر تم چیخو گے، پکارو گے، کیونکہ وہ حکمران تمہارے ہی عمل کی وجہ سے مسلط کیے ہوئے ہوں گے۔ بلکہ تمہارے معاشرے کے جو نیک لوگ ہوں گے وہ تمہارے حق میں دعا کریں گے لیکن ان کی دعا بھی نہیں سنی جائے گی۔ فرمایا جائے گا کہ انہوں نے تو خود ظلم اور شر کو طلب کیا ہے، خیر اور عدل کو رد کیا ہے۔ یہ اپنا نظام خود بدل سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم خدمت دین کا فریضہ کبھی نہ چھوڑنا اور چھوڑو گے تو پھر تم پر بھی ایسے حکمران آئیں گے جو نہ چھوٹوں پر رحم کریں گے اور نہ بڑوں کی عزت کریں گے۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہ ہو کہ لوگوں کا ڈر اسے حق کا کلمہ بلند کرنے سے روک دے، خوفزدہ ہو جائے کہ فلاں ناراض ہو جائے گا یا میرے اس مفاد کو نقصان پہنچ جائے گا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے سے سوال کریں گے کہ اے بندے بتا! تو دیکھ رہا تھا کہ معاشرے میں گناہ ہو رہے ہیں، فحاشی ہو رہی ہے، ظلم ہو رہا ہے لیکن تو نے اس کو نہیں روکا۔ قیامت کے دن یہ سب پوچھا جائے گا۔ شیخ الاسلام نے کہا دوستو! جہاں کھانا کھانا تم پر واجب ہے اس کھانے سے پہلے اللہ کے دین کی حفاظت کرنا تم پر واجب ہے۔ اس پر قیامت کے دن سوال ہوگا۔

حضرت ابو عبدالرحمن العمری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تھے کہ جس شخص نے مخلوق کے ڈر سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ دیا، اس شخص کی اپنی زندگی سے اس کے حکم کی ہیبت ختم کر دی جاتی ہے۔ اس کے گھر والے اس کا حکم نہیں مانتے، اولاد نافرمان ہو جاتی ہے۔ آقا علیہ السلام نے تو یہ راز پہلے ہی بتا دیا تھا کہ بچے بات اس لئے نہیں سنیں گے کہ تم نے اللہ کی بات نہیں سنی تھی۔ جو اللہ کی بات نہیں سنتا بچے اس کی بات نہیں سنتے۔ آقا علیہ السلام نے وزن بتا دیا اس کو اہل اللہ نے بیان کیا ہے کہ جس شخص کے دل میں اللہ کی بات کی قدر کم ہو گئی اس کی بات کی قدر اس کی اولاد کے دل میں گی۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہے کہ لوگو! امر بالمعروف کا فریضہ انجام دیتے رہو۔ اگر یہ کام چھوڑ دو گے تو اللہ تمہارے اندر قتل انگیزی پیدا کر دے گا اور دہشت گردی آ جائےگی، قتال آجائے گا اور خون خرابہ ہو گا۔ پھر اہل شر کو حکومت دے دی جائے گی، پھر وہ آپ کا قتل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ قتل کی کئی قسمیں ہیں مثلاً معاشی قتل ہے، آٹا غائب کرنے کا قتل ہے، چینی کی عدم دسیتابی کا قتل ہے، زندگی کی آسائشوں اور زندہ رہنے کی ضرورت کا قتل ہے۔ پھر تم پکارو گے، دعا کرو گے لیکن اللہ تعالیٰ اس دعا کا جواب نہیں دے گا۔

سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جب مومنوں کے دل ایسے پگھل جائیں گے جس طرح نمک پانی میں حل ہو جاتا ہے۔ صحابہ نے فرمایا کہ ایسا کیوں ہوگا؟ تو آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ لوگ دین کی حفاظت کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام نہیں دیں گے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آقا علیہ السلام نے فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ دور ہو گا کہ جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ دیا جائے گا۔ انہوں نے آقا علیہ السلام سے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دور کب ہو گا؟ آپ نےکہا کہ معاشرے کے صاحب ثروت لوگ جب حرص والے ہو جائیں گے اور علم چھوٹے لوگوں کی طرف منتقل ہو جائے گا اور بڑے اٹھ جائیں گے۔ علم ان لوگوں کے پاس چلا جائے گا جو گھٹیا سوچ رکھتے ہوں گے۔ جو تمہارے قراء ہوں گے، قرآن پڑھنے والے، قرآن سنانے والے اور قرآن کا وعظ اور تقریریں کرنے والے اپنے مفاد کے لیے قرآن کی بات کو تبدیل کریں گے اور چھپائیں گے، جھوٹ بولیں گے حالانکہ وہ حق جانتے بھی ہونگے۔ حکومت چھوٹے لوگوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی، پھر وہ ایسا حشر کریں گے جیسے چھوٹے لوگوں کے ہاتھ میں طاقت آ جائے تو کرتے ہیں۔ پھر اس کو عبداللہ بن عمر بن العاص کی روایت میں فرمایا کہ یہ وہ دور ہو گا جب لوگوں کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کو توڑا جائے گا، خلط ملط کر دیا جائے گا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا عوام کی خواہشوں کی چھوڑ دینا، ان کے پیچھے نہ چلنا، برباد کر دیں گے۔ دین میں ہیرا پھیری کرنے سے بچنا۔ دین میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے سے بچنا، استقامت اور پختگی اختیار کرنا، ظاہر و باطن کو ایک رکھنا۔

حضرت ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا لوگو بتاؤ تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا؟ جب تمہارے معاشرے کی عورتیں باغی ہو جائیں گے اور تمہارے جوان بے حیائی اور فسق و فجور میں مبتلا ہو جائیں گے، اور تم اللہ کے دین کی اقامت کی جدوجہد کو چھوڑ دو گے۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا واقعی ایسا ہوگا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اس سے بھی شدید تر ہوگا۔ آپ نے کہا کہ اس سے شدید تر یہ ہوگا کہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی چھوڑ دو گے۔ یہ عورتوں کے باغی ہونے اور جوانوں کے بے حیائی اور فسق و فجور میں مبتلا ہونے سے بھی بد تر ہو گا۔ صحابہ نے حیرانگی سے عرض کیا یا رسول اللہ ایسا دور بھی آئے گا کہ جب لوگ دین کی خدمت اور اقامت کا فریضہ بھی ترک کر دیں گے۔ اس پر آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں اس سے بھی شدید اور برتر حال ہوں گا، جب معاشرے میں نیکی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھا جانے لگے گا۔ برے لوگ عزت والے سمجھے جائیں گے۔ مکار، بدکار اور گھٹیا لوگ عزت دار سمجھے جائیں گے۔ نیک مجرم تصور ہونگے۔ جو حلال کھائے گا پاگل کہلائے گا، جو نیکی عبادت کرے گا وہ ناکارہ کہلائے گا، جو دین کا علم رکھنے والا ہو گا بیکار کہلائے گا اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ جو جتنا حرام خور، بددیانت، خیانت، لٹیرا، کرپٹ اور دھوکہ دجل کرنے والا ہو گا اتنا ہی بڑا، طاقتور، معزز اور امیر و کبیر ہوگا۔ پیمانے بدل جائیں گے۔ فرمایا یہ اس سے بھی بد تر حال ہوگا۔

اس وجہ سے آقا علیہ السلام نے فرمایا حضرت سالم بن عبداللہ روایت کرتے ہیں اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ آقا علیہ السلام فرمایا کرتے  کہ لوگو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے دین کی خدمت کر لو، اقامت دین کی محنت کر لو، جاری جاری رکھو کہیں وقت نہ آ جائے کہ تم دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ تمہاری دعا کا جواب نہ دے۔ تم اللہ سے مغفرت مانگو اللہ تمہیں معاف نہ کرے، تم طلب کرو اللہ تمہیں عطا نہ کرے، تم سوال کرو اللہ تمہاری بات کو نہ سنے۔ اس لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا تم جو وقت امر بالمعرف اور نہی عن المنکر پر وقت لگاتے ہو یہ تمہارے رزق کو کم نہیں کرتا بلکہ ہلاکت یہ پریشانی کی گھڑی کو دور کرتا ہے۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا جب یہودیوں اور عیسائیوں کے بڑے دینی رہنماؤں نے دین کا کام ترک کر دیا اور اپنے دین اور مذہب کی اقامت، خدمت اور فروغ کا کام چھوڑ دیا تب اللہ نے ان کے انبیاء کی زبانوں کے ذریعے ان پر لعنت بھیجی، انہیں اپنی رحمت سے محروم کرنے کا اعلان کیا اور پھر اللہ نے انہیں اجتماعی طور پر بلاؤں، آفتوں اور مصیبتوں میں گھیر لیا۔ فرمایا ڈرو اس وقت سے کہ وہ حال تمہارا نہ ہو جائے، اگر ایسا کرو گے تو تمہارا حال بھی یہی ہو گا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ آپ اس اعتکاف کے بعد یہ پیغام لے کر جائیں کہ آپ میں سے ہر شخص نئے جذبہ اور نئی روح کے ساتھ  مرتے دم تک خدمت و اقامت دین کا عظیم کارکن بن کر جائے، آپ کی زندگی میں چین اور سکون اس وقت تک حرام ہو جائے جب تک خدمت و اقامت دین کا فرض ادا نہ ہو جائے۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ دعوت الی الخیر کے لئے آپ میں سے ہر شخص کو کم سے کم ضروری علم دین ہونا چاہئے۔ اس کے لیے آپ کتب کا مطالعہ کریں، خطابات کی سی ڈیز سنیں اور اپنے گھروں میں لائبریریاں بنائیں۔ اللہ رب العزت نے علم والوں کو ہی یہ مقام دیا کہ جب وہ چلیں تو فرشتے ان کے قدموں کے نیچے پر بچھائیں، وہ علم کے طلب کے لئے اور علم کے فروغ کے لئے صاحبان علم چلیں تو سمندروں اور دریاؤں کی مچھلیاں بھی ان کے لیے اللہ کے حضور بخشش کی دعائیں کریں اور آسمانوں کے فرشتے بھی بخشش کی دعائیں کریں۔ اللہ نے فرمایا کہ علم والے اور علم نہ رکھنے والے اللہ کے ہاں کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ ہر شخص اللہ کے حضور شکرانے، عزم، ارادے اور نیت کے لئے دو نفل ادا کرے کہ باری تعالیٰ ہمیں اپنی بارگاہ میں اپنے دین کی خدمت، حفاظت اور اقامت کے لئے نوکر قبول کر لے اور مرتے دم تک یہ نوکری قائم رکھ۔

شہراعتکاف سے ۔۔۔۔ ایم ایس پاکستانی
معاون : محمد نواز شریف

تبصرہ